Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

 نہ دید ہے نہ سخن‘ اب نہ خرف ہے نہ پیام
کوئی بھی حیلہ تسکین نہیں اور آس بہت ہے
امید  یار نظر کا مزاج‘ درد کا  رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اداس بہت ہے
”تم نے یہ سوچا بھی کیسے کہ میں اس گھر میں حصہ لینے کی آس لئے یہ سب کر رہا ہوں ، تم سمجھتی کیا ہو خود کو؟“ اس کے خون کی تمام سرخی چہرے پر در آئی تھی وہ شرر بار نگاہوں سے اسے گھور رہا تھا۔
”ماریئے اور ماریئے… رک کیوں گئے آپ؟“ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضبوط پراعتماد لہجے میں گویا ہوئی۔
”آپ کا یہ تھپڑ میرے ارادوں کو متزلزل نہیں کر سکتا ، میں بچپن سے ایسی مار کھانے کی عادی ہوں ، کبھی لہجوں کی مار ، کبھی حق تلفی کی مار اور کبھی نفرتوں اور عداوتوں کی مار ، کتنا مار سکتے ہیں آپ مجھے مار کر دیکھ لیں۔


میرے حوصلوں سے زیادہ آپ کی ہمت مضبوط ثابت نہیں ہو گی۔“ اس کے مضبوط ہاتھ کا تھپڑ پری کے دائیں رخسار پر انگلیوں کے سرخ نشان ثبت کر چکا تھا اس کی جگہ کوئی دوسری لڑکی ہوتی تو یقینا اس بے ساختہ و زور دار تھپڑ کی تاب نہ لاکر گر چکی ہوتی مگر اس نے کوئی آواز نکالے بنا اس کا تھپڑ برداشت کیا بلکہ بڑی ثابت قدمی سے اس کے سامنے ڈٹی رہی تھی۔
”میں مار برداشت کر سکتی ہوں ، نفرت برداشت کر سکتی ہوں ، ہر ظلم و جبر برداشت کر سکتی ہوں مگر کوئی مجھ پر ترس کھائے ، بھیک دے یہ میں برداشت نہیں کر سکتی میں آپ کو ہم لوگوں پر ترس کھانے نہیں دوں گی ، آپ کو یہ چیک لینا ہوگا طغرل بھائی ، پلیز… آپ خیرات مستحق لوگوں کو جا کر دیں۔
“ سخت ہٹ دھرمی و ضدی پن تھا اس کے انداز میں۔ بے حد روکھا و بے گانگی بھرا انداز تھا گویا طغرل کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو۔
”میں تمہاری اس بکواس سے بالکل متاثر ہونے والا نہیں ہوں ، تم سائیکی ہو اس پر مجھے یقین ہو گیا ہے۔ اب تم جاؤ یہاں سے میں اس وقت تم کو برداشت نہیں کر پا رہا ہوں۔“ وہ سخت مہری سے کہتا ہوا مڑا اور وہ آگے بڑھ کر اس کے سامنے کھڑی ہو کر چیک اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔
”یہ چیک آپ کو لینا ہوگا طغرل بھائی!‘
”میں نہیں لوں گا ، تم جاؤ یہاں سے۔“ سخت کرختگی تھی لہجے میں۔
”آخر آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں؟ آپ کا حق نہیں بنتا ہم پر ہمارے گھر کے پرابلمز حل کرنے کا ، ہمیں آپ کا پیسہ نہیں چاہئے۔“
”میرا پیسہ تم پر اس گھر پر حرام ہے؟“ وہ غصے سے گویا ہوا۔
”اور اس عورت کا پیسہ جو سالوں قبل اس گھر کو ، اس گھر کے مکینوں کو چھوڑ کر جا چکی ہے حلال ہو گیا ہے… بولو؟“
”وہ عورت کوئی غیر نہیں میری ماں ہے ، میرا تعلق ہے ان سے۔
”صرف تم سے ہے نا ، یہاں ان کا کوئی نہیں ہے ان کی عنایتیں اپنی حد تک ہی محدود رکھو۔ میں اس گھر کا بیٹا ہوں ، چچا جان کو میں نے ہمیشہ ڈیڈ کی طرح چاہا ہے اور یہ بیٹے کا فرض ہوتا ہے اگر باپ پر کوئی مشکل آن پڑے تو اس کا بازو بن جائے ، جو میں بن گیا ہوں اور یہاں میں تم سے گائیڈ لائن لینا پسند نہیں کرتا ، یہ گھر میرا ہے یہاں بسنے والے لوگ میرے ہیں مجھے اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہیں۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ تم نہیں مانو گی لیکن مجھے کوئی پروا نہیں ، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے تمہارے نہ ماننے سے۔“ اس نے چیک کے پرزے پرزے کرکے اچھالتے ہوئے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔
بارش کی شدت میں قدرے کمی ہوئی تھی مگر اس کے جذبات کے سمندر میں شدید طغیانی در آئی تھی وہ کمرے سے نکل کر سیدھا لان میں چلا آیا ، جہاں نیم اندھیرا تھا وہ جس تیز رفتاری سے کمرے سے نکلا تھا گویا پری کی پرچھائی سے بھی دور بھاگ جانا چاہتا ہو لان کی پانی سے تربتر سبز گھاس پر قدم رکھتے ہی ایک ٹھنڈک کا احساس اس کے بھڑکتے احساس پر طمانیت بھرے جھونکے پھیلاتا چلا گیا تھا۔
اس کے قدم از خود ہی سست پڑ گئے تھے ، وہ ڈھیلے قدموں سے چلتا ہوا وہاں آویزاں سنگی بنچ پر بیٹھ گیا۔ بارش کی قطرہ قطرہ بوچھاڑ لمحوں میں اس کو بھگوتی گئی تھی ، مگراس کو بالکل پروا نہ تھی۔
اس کی سماعتوں میں ہنوز پری کی بیگانگی بھری باتیں گونج رہی تھیں۔
”کوئی ہم پر ترس کھائے ، ہم کو بھیک دے ، میں یہ برداشت نہیں کر سکتی۔
“ اس کی آواز میں بجلیوں کی کڑک تھی ، شعلوں کی لپک تھی۔
”میں آپ کو ہم لوگوں پر ترس کھانے نہیں دوں گی ، اپنی خیرات کا پیسہ مستحق لوگوں کو جا کر دیں۔“ اس نے کرب سے آنکھیں بند کر لیں۔
”اومائی گاڈ! وہ لڑکی مجھے پاگل کر دے گی ، وہ اتنی بے حس کیوں ہے؟ اس کو ہر وقت اپنی عزت نفس کی پروا رہتی ہے جب بولتی ہے تو سامنے والی کی عزت نفس کی ذرا پروا نہیں ہوتی ہے۔
میں تو اس کی نگاہوں میں کوئی ویلیو ہی نہیں رکھتا وہ مجھ سے کوئی تعلق ماننے کو تیار نہیں ہے۔“ اس نے بنچ کی بیک سے سر ٹکا لیا تھا۔
بارش کی بوندیں اس کے چہرے کو بھگونے لگی تھیں ، ہر سو بے زاریت و بیگانگی کی بوجھل دھند تہہ در تہہ چھاتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ زبان جو بدن کا سب سے نازک عضو ہے جس میں کسی سختی اور کھردرا پن کا شائبہ تک نہیں ہے بتیس دانتوں کے درمیان جس کو رکھا گیا ہے جب یہ نازک شے چلتی ہے تو خطرناک ہتھیار سے بھی زیادہ مہلک وار لگاتی ہے کہ سامنے والے کو لہولہان بھی کر ڈالے ، بے دام بھی کر دے مگر اس کے زخم کسی کو دکھائی نہیں دیتے ہیں۔
عجیب سحر ہے اس میں بڑی طاقت ہے اگر چاہے تو زخموں کو پھول بنا دے اگر مخالفت پر اتر آئے تو زندگی جہنم بنا ڈالے جس طرح وہ انگاروں پر لوٹ رہا تھا۔
###
حاجرہ بے حد مہارت سے ماہ رخ کے بالوں میں مساج کر رہی تھی وہ برآمدے کی اندرونی سیڑھیوں پر بیٹھی تھیں جو سرخ دیدہ زیب ڈیزائن والے ایرانی قالینوں سے ڈھکی ہوئی تھیں اور برآمدے کا فرش بھی قالینوں سے ڈھکا ہوا تھا برآمدہ کیونکہ کوریڈور میں تھا اس کو انڈر پلانٹس سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا جن کی ہریالی نگاہوں کو تراوٹ بخشتی تھی۔
غفران احمر وقت سے پہلے ہی واپس آ گیا تھا اور ماہ رخ کو اسی طرح افسردہ و اداس دیکھ کر اس نے حاجرہ کو حکم دیا تھا اس کی اچھی طرح خدمت کرے ہر طرح سے اس کو آرام پہنچانے کی سعی میں لگی رہے وہ چند دنوں میں ماہ رخ سے نکاح کرنے کی خوشخبری سنا کر گیا تھا اس کے سامنے اس نے بڑی خوشی کا اظہار کیا تھا اور اس کے جاتے ہی وہ گھبرا کر ماہ رخ سے گویا ہوئی تھی۔
”اس کو تمہاری خوش قسمتی سمجھوں ماہ رخ یا بدبختی؟ اعوان تم سے ملنے کو بے قرار ہیں ، ساحر کی اصلیت جاننے کے بعد وہ تم سے کی جانے والی بدسلوکی پر شرمندہ ہیں۔ معافی مانگنے کیلئے یہاں رکے ہوئے ہیں ، تم ان سے ملنے کیلئے راضی نہیں ہو اور یہ آج رئیس نے بالکل ہی انہونی خواہش کا اظہار کیا ہے وہ تم کو بیوی بنانا چاہتے ہیں۔“
”تم جلدی سے مساج کرکے یہاں سے جاؤ ، مجھے اب کسی بات سے فرق نہیں پڑتا ہے اعوان سے میں نے کبھی محبت نہیں کی ، اس کی کوئی بات مجھ پر اثر انداز نہیں ہو گی۔
غفران احمد کی خواہشوں سے بھی مجھے کوئی سروکار نہیں ہے میں نے خود کو تقدیر کے رحم و کرم کے سپرد کر دیا ہے۔“ اس کا لہجہ احساس و جذبات سے عاری تھا۔
حاجرہ نے گہرا سانس لیا اس کے ہاتھ مستعدی سے چلنے لگے۔ سیڑھیوں کی دوسری طرف چھپ کر ان کی باتیں سنتی ہوئی دلربا کے جلتے ہوئے دل پر گویا ہلکے ہلکے پانی کے چھینٹے سے گرنے لگے تھے وہ پہلے دن سے ہی ماہ رخ کو اپنی دشمن سمجھنے لگی تھی پھر دن بدن غفران احمر کے بڑھتے ہوئے التفات نے اس کی یکطرفہ دشمنی کو مزید وسیع کر دیا تھا اور آج غفران احمر کے اس اعلان نے کہ ماہ رخ عنقریب ان کی ملکہ بننے والی ہے حقیقتاً اس کو انگاروں پر لوٹا دیا تھا یہ خواب دیکھتے دیکھتے وہ بڑھاپے کی دہلیز عبورکر گئی تھی اور تعبیر کس کے حصے میں آ رہی تھی ، اس نے سوچا تھا وہ ایسا ہونے نہیں دے گی۔
###
ایک ہفتہ سرعت سے گزر گیا تھا۔
گزرتا کوئی لمحہ فاخر کے موڈ کو نہ بدل سکا وہ ان کی کال ریسیو نہیں کر رہا تھا ، عائزہ کو چپ لگ گئی تھی۔ صباحت کا مارے غصہ و جھنجلاہٹ سے برا حال تھا وہ فاخرہ بھابی کو غائبانہ بددعاؤں ، گالیوں سے نوازتی تھیں تو کبھی فاخر کو برا بھلا کہنے بیٹھ جاتیں۔ زینب بہن کو سمجھا سمجھا کر تھک چکی تھیں کہ فاخر کے اس سلوک کے پیچھے فاخرہ بھابی کا کوئی قصور نہیں ہے یہ سب عائزہ کی کرنی کا پھل ہے ، ابھی بھی وہ اسی ٹاپک کو کھولے بیٹھی تھیں زینب ان کو خفگی سے دیکھ رہی تھی۔
”تم کچھ بھی کہو زینی! یہ ساری آگ بھابی بیگم کی ہی لگائی ہوئی ہے وہ چنگاری لگا کر چلتی بنیں جو بھڑکتے بھڑکتے شعلہ بن گئی ہے میں تو ان کی کال کا انتظار کر رہی ہوں ، دیکھنا کیسی طبیعت صاف کرتی ہوں ان کی وہ سمجھتی ہیں مجھے اس طرح نیچا دکھائیں گی۔ ہونہہ! میں ان کا دماغ درست کر دوں گی۔“ وہ دانت پیستے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”ارے آپی! ایسا غضب مت کر دیجئے گا بھابی اور بھائی کو اس سارے قصے کی ہوا بھی نہیں لگنے دیجئے گا ، ورنہ بہت برا ہوگا۔
“ زینب ان کے عزائم بھانپ کر تیزی سے بولی۔
”اب جو ہو رہا ہے اس سے برا کیا ہوگا بھلا؟ تم مجھے ڈراؤ مت۔“ وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے گویا ہوئیں۔
”فاخر نے بھی ان تمام باتوں کو جو اس نے عائزہ سے سنی ہیں اور اپنی ذات تک ہی محدود کر رکھی ہیں ، بھائی روغیرہ کسی کو نہیں بتایا ہے۔“
”یہ تم کس طرح کہہ سکتی ہو جبکہ اس دوران تمہاری اس نے کال ہی نہیں ریسیو کی پھر تم کو تو عائزہ نے وہ سب بتایا ہے فاخر نے نہیں۔
“ صباحت اس کی طرف دیکھ کر گومگو کیفیت میں پوچھ رہی تھیں۔
”میں فاخر کے مزاج کو بھی جانتی ہوں اور بھابی و بھائی جان کی عادت کو بھی اگر ایسا کچھ ہوتا تو بھابی چپ رہنے والی نہ تھیں وہ سب سے پہلے فیاض بھائی اور اماں جان کو ساری باتیں بتاتیں پھر وہ آپ کو بھی سکون سے رہنے نہیں دیتیں۔ اس کے علاوہ خاندان کے لوگوں کو علیحدہ فون کر کرکے سارے خاندان میں رسوائی و بدنامیکا ڈھنڈورا پیٹتیں۔
”ہاں! کہہ تو تم بالکل ٹھیک رہی ہو وہ تو ایسی ہی عورت دوسرں کے عیب و کمزوریاں ہاتھ آنے پر لوگوں کے سامنے تماشہ بنانے میں بڑا مزا ٓتا ہے بھابی کو۔“ وہ چونک کر گویا ہوئیں۔
”میری ایک بات مانیں گی آپی؟“ اس نے سنجیدگی سے استفسار کیا۔
”کون سی بات ہے؟“ انہوں نے بہن کو کھوجتی نگاہوں سے دیکھا۔
”میرا مشورہ ہے آپی! اماں جان سے ہمیں عمدہ رہنمائی مل سکتی ہے ، آپ تمام باتیں بتا کر ان سے مشورہ لیں تو…“
”کیسی باتیں کر رہی ہو تم ، ایسی باتیں بتانے سے بہتر ہے میں خود کشی کر لوں وہ تو ویسے ہی میرے خلاف رہتی ہیں ، خدانخواستہ ان کو ان باتوں کی بھٹک بھی پڑ گئی تو میرا حشر دھوبی کے کتے جیسا ہو جائے گا میں ہرگز ان کو بتانے والی نہیں ہوں۔
“ وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر سراسیمہ انداز میں اس کی بات قطع کرکے بولیں۔
”خیر آپی! یہ سب آپ کی غلط فہمی ہے وگرنہ وہ بہت اچھی ہیں۔“ زینب نے ان کے انداز پر شاکی لہجے میں جواب دیا تھا۔
”ہونہہ تم کیا جانو دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں ، میں ان کو سالوں سے بھگت رہی ہوں۔ خوب جاتنی ہوں وہ کتنی اچھی ہیں۔“ انہوں نے متنفر انداز میں کہا اور اٹھ کر چلی گئیں۔

   1
0 Comments